پیغمبر اسلامؐ كی نماز کا طریقه


VIA PINTEREST


روايات كے روشنی میں پیغمبر اسلامؐ كی نماز کا طریقہ



مترجم: ابو دانیال اعظمی بریر


اکثر شیعہ اور سنی روایات میں رسولخداؐ کے توسط سے نماز بجا لانے کی کیفیت کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے.

روایات میں پیغمبر اسلامؐ کے توسط سے نماز پڑھنے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے جسے ہم فریقین کی کتابوں سے یہی تحریر کرنا چاہتے ہیں رسول اسلامؐ کا نماز پڑھنے کا طریقہ کیا تھا تا کہ ہر مسلمان رسول اسلامؐ کے نماز پڑھنے کی کیفیت سے آگاہ ہو جائے اور اسی کے مطابق اپنی نماز کو بھی انجام دیتا رہے.

ہم بطور مثال چند نماز کے منتخب امور کا تذکرہ ذیل میں کر رہے ہیں:

۱- امام علیؑ فرماتے ہیں: «رسولخداؐ تکبیرۃ الاحرام کہتے وقت اور رکوع کیلئے نیز رکوع سے سر اٹھاتے وقت تکبیر کہنے کی خاطر ہاتھوں کو کانوں کے گوشواروں تک بلند کیا کرتے تھے.». [ابن حیون مغربی، نعمان بن محمد، دعائم الإسلام و ذکر الحلال و الحرام والقضايا والأحکام، ‌۱/ ۱۶۲، قم، مؤسسة آل البیت (ع)، چاپ دوم، ۱۳۸۵ ق.]

۲- امام علیؑ نے فرمایا ہے: «جب بھی رسولخدا جماہی کی کیفیت پیدا ہوتی تھی تو اپنا داہنا ہاتھ منہہ کے سامنے قرار دیتے تھے.». [محدّث نوری، حسین، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ‌۵/ ۴۱۶، قم، مؤسسه آل البیت (ع)، چاپ اول، ۱۴۰۸ ق.]

۳- امام علیؑ نے محمّد بن أبی‌ بکر کو تحریر کیا: اپنے رکوع اور سجود کی حفاظت کرو؛ کیونکہ سب لوگوں سے بہترین انداز میں رسولخداؐ اپنی نماز کو مکملترین طریقہ پر انجام دیتے تھے اور دوسروں سے زیادہ بہتر طریقہ سے نماز کے ارکان و اذکار کی رعایت کرتے تھے اور جب بھی رکوع میں جاتے تھے تو 3 بار مذکورہ ذکر کو کہا کرتے تھے: 

«سبحان ربّى العظیم و بحمده»

اور جس وقت سجده میں جاتے تھے تو مذکورہ ذکر کہا کرتے تھے:

«سبحان ربّى الأعلى و بحمده».

[ثقفی، ابراهیم بن محمد بن سعید بن هلال، الغارات أو الاستنفار و الغارات، محقق: محدث، جلال الدین،  ‌۱/ ۲۴۶ – ۲۴۷، تهران، انجمن آثار ملی، چاپ اول، ۱۳۹۵ ق.]

۴- اسی طرح سے ایک روایت میں مذکور ہے کہ جس وقت رسولخداؐ رکوع سے سر بلند کرتے تو مذکورہ ذکر کہا کرتے تھے:

«سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ أَللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ مِلْ‌ءَ سَمٰوَاتِكَ وَ مِلْ‌ءَ أَرْضِكَ وَ مِلْ‌ءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْء» [حوالہ سابق، ص ۲۴۶.]

خداوند عالم نے سنا جس نے اس کی حمد کی، پروردگارا تیری ہی حمد ہے جو آسمانوں اور زمینوں کر پر کئے ہوئے ہے اور ہر چیز سے زیادہ بھر پور ہے جس سے تو چاہتا ہے.».

۵- امام باقرؑ نے فرمایا ہے: «رسولخداؐ نماز میں بلند آواز سے بسم اللہ پڑھا کرتے تھے:

«بسم الله الرّحمن الرّحیم»

اور بسم اللہ پڑھتے وقت اپنی آواز کو بلند کیا کرتے تھے.».

[عیاشی، التفسیر، ‌۱/ ۲۰، تهران، المطبعة العلمیة، چاپ اول، ۱۳۸۰ ق.]

۶- امام باقرؑ نے فرمایا: «رسولخداؐ کے 2 اصحاب کے درمیان آنحضرتؐ کی قرائت نماز کی کیفیت میں اختلاف پیدا ہوا لہذا اس بارے میں وضاحت کیلئے ابىّ بن کعب کو خط لکھا کہ "رسولخداؐ نماز میں کتنی بار سانس لیتے یا توڑتے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا: رسولخداؐ حالت قرأئت میں 2 مقامات پر سانس توڑتے یا سانس لیتے تھے: پہلی دفعہ سورہ فاتحہ سے فارغ ہونے کے بعد اور دوسری دفعہ دوسرا سورہ ختم ہونے کے بعد.». [طوسی، محمد بن حسن، تهذیب الاحکام، ‌۲/ ۲۹۷، تهران، دار الکتب الإسلامیة، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ ق.]

۷- امام صادقؑ نے فرمایا ہے: «رسولخداؐ "نماز صبح" میں مندرجہ ذیل سورے پڑھا کرتے تھے:

(سوره (78) نبأ) «عمّ یتسائلون» و (سوره (88) غاشيه) «هل أتیك حدیث الغاشیه» و  (سوره (90) بلد) «لا اقسم بیوم القیامة» وغيرہم جیسے ہی سورتیں قرائت فرمایا کرتے تھے.

"نماز ظهر" میں (سورہ (87) أعلیٰ) «سبّح إسم ربّك» و (سوره (91) شمس) «والشمس و ضحیها» و (سوره (88) غاشيه) «هل ٰأتیك حدیث الغاشیه» وغیرہم جیسی ہی سوروں کی قرائت فرمایا کرتے تھے.

"نماز مغرب" میں کوتاہ تر سورت (سورہ (112) اخلاص) «قل هو الله أحد» و  (سوره (110) نصر «إذا جاء نصر الله والفتح» و  (سوره (99) زلزله) «إذا زلزلت» جيسے کی تلاوت فرمایا کرتے تھے.

"نماز عشاء" ميں جن سوروں کی بھی قرائت فرماتے تھے وہی سورتیں "نماز ظهر" میں بھی قرائت فرماتے تھے.  

جن سوروں کی قرائت "نماز عصر" میں فرمایا کرتے تھے ان ہی سورتوں کو بھی "نماز مغرب" میں قرائت فرماتے تھے». [حوالہ سابق، ص ۹۵ – ۹۶.]

۸- هشام بن حکم کہتے ہیں کہ میں نے امام کاظمؑ سے عرض كيا: کس وجہ سے رکوع میں یہ ذکر پڑھا جاتا ہے؟

«سُبحَانَ رَبِّىَ العَظِیمِ وَ بِحَمدِه»

اور سجده میں بھی یہ ذکر ہی کیوں کرتے ہیں؟

«سُبحَانَ رَبِّىَ الأَعلَیٰ وَ بِحَمدِه»

آنحضرت نے فرمایا: «ائے هشام! جس وقت رسولخداؐ کو معراج پر لے جایا گیا اور وہاں پر جو نماز ادا کیا تھا تو اس شب میں حق تعالی کی عظمت و بزرگى کی حالت میں متذکر دیکھا تو آنحضرتؐ کا بدن مبارک لرزنے لگا اور بے اختیار حالت رکوع میں گئے اور اسی رکوع کی حالت میں اس ذکر کو زبان مبارک پر جاری فرمایا:

«سُبحَانَ رَبِّىَ العَظِیمِ وَ بِحَمدِه»

اور جس وقت رکوع سے اٹھے، تو حق تعالى کے مقام کی طرف اور پہلے سے بھی ارفع و اعلی اپنی منزلت و مقام کو ملاحظہ فرمایا تو [خشیت و عظمت حق تعالی] کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے سجدہ میں گر پڑے اور یہ ذکر فرمانے لگے:

«سُبحَانَ رَبِّىَ الأَعلَیٰ وَ بِحَمدِه»

آنحضرتؐ جس وقت ان 2 ذکروں کو 7 بار تکرار کر چكے تو خوف و ڈر کی حالت زائل ہوئی اور اطمینان قلب حاصل ہوا ...». [شیخ صدوق، علل الشرائع، ‌۲/ ۳۳۲ – ۳۳۳، قم، کتاب فروشی داوری، چاپ اول، ۱۳۸۵ ش.]

۹- ابو سعید خدرى کہتے ہیں کہ رسولخداؐ نماز کی قرائت میں مشغول ہونے سے پہلے "إِستِعَاذَۃ" پڑھا کرتے تھے: 

«أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم»

[شیخ حرّ عاملی، وسائل الشیعة، ‌۶/ ۱۳۵، قم، مؤسسه آل البیت (ع)، چاپ اول، ۱۴۰۹ ق.]

۱۰- براء بن عازب کہتے ہیں: رسولخداؐ کسی بھی واجب نماز کو بغیر «قنوت» کے انجام ہی نہیں دیتے تھے. [ابن ابی جمهور، محمد بن زین الدین، عوالی اللئالی العزیزیة فی الأحادیث الدینیة، ‌۲/ ۴۲، قم، دار سید الشهداء للنشر، چاپ اول، ۱۴۰۵ ق.]

۱۱- محمد بن مسلمه کہتے ہیں کہ رسولخداؐ سجده میں اسی دعا کو پڑھا کرتے تھے:

«ِأَللّٰهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ، وَ بِكَ آمَنْتُ، وَ لَكَ أَسْلَمْتُ، سَجَدَ وَجْهِی‌ لِلَّذِی خَلَقَه‌ُ و صَوَّرَهُ، وَ شَقَّ سَمْعَهُ وَ بَصَرَهُ، فَتَبَارَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِین»

‌[صالحی دمشقی، محمد بن یوسف، سبل الهدی و الرشاد فی سیرة خیر العباد، ‌۸/ ۱۴۶، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ اول، ۱۴۱۴ ق.]

خدایا! تیرے لئے ہی میں سجدہ کرتا ہوں اور تجھ پر ہی ایمان لایا ہوں اور میں تیری بارگاہ میں سر تسلیم خم کرتا ہوں اور [حقیقت] میں اپنے چہرہ کو تیری بارگاہ میں سجدہ ریز کیا جس کیلئے اسے خلق کیا اور اس کی تصویر کشی فرمائی اور آنکھ اور کان کو اس کی خاطر شکافتہ فرمایا پس اے اللہ! تو ہی پاک و پاکیزہ اور منزہ ہے نیز بہترین خالق فقط تو ہی ہے.


تمت بالخير به نستعين و هو خير المعين


$}{@J@r






DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS


ER SYED ABBAS HUSSAIN KHORASSANI





Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی